فضائل درود و سلام احادیث مبارکہ کی روشنی میں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
درود و سلام سنتِ الٰہیہ اور سنتِ ملائکہ ہے۔
1. عَنْ أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله
عليه وآله وسلم : إِنَّ مِنْ أَفْضَلِ أَيَامِکُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فِيْهِ خُلِقَ آدَمُ،
وَفِيْهِ قُبِضَ، وَفِيْهِ النَّفْخَةُ، وَفِيْهِ الصَّعْقَةُ، فَأَکْثِرُوْا عَلَيَّ مِنَ الصَّلَاةِ
فِيْهِ،
فَإِنَّ صَلَاتَکُمْ مَعْرُوْضَةٌ عَلَيَّ، قَالَ : قَالُوْا : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، کَيْفَ تُعْرَضُ
صَـلَاتُنَا عَلَيْکَ وَقَدْ أَرِمْتَ؟ قَالَ : يَقُوْلُوْنَ : بَلِيْتَ. قَالَ : إِنَّ اﷲَ عزوجل
حَرَّمَ عَلَی الْأَرْضِ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ.
وفي رواية : فَقَالَ : إِنَّ اﷲَ جَلَّ وَعَـلَا حَرَّمَ عَلَی الْأَرْضِ أَنْ تَأْکُلَ
أَجْسَامَنَا.
رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَالنَّسَاءِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَالدَّارِمِيُّ. وَقَالَ الْحَاکِمُ : هٰذَا
حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلٰی شَرْطِ الْبُخَارِيِّ. وَقَالَ الْوَادِيَاشِيُّ : صَحَّحَهُ ابْنُ
حِبَّانَ. وَقَالَ الْعَسْقَـلَانِيُّ : وَصَحَّحَهُ ابْنُ خُزَيْمَةَ. وَقَالَ الْعَجْلُوْنِيُّ :
رَوَاهُ
الْبَيْهَقِيُّ بِإِسْنَادٍ جَيِّدٍ. وَقَالَ ابْنُ کَثِيْرٍ : وَقَدْ صَحَّحَ هٰذَا الْحَدِيْثَ بْنُ
خُزَيْمَةَ، وَابْنُ حِبَّانَ، وَالدَّارَ قُطْنِيُّ، وَالنَّوَوِيُّ فِي الْأَذْکَارِ.
أخرجه أبو داود في السنن،کتاب الصلاة، باب فضل یوم الجمعة وليلة
الجمعة، 1 / 275، الرقم : 1047، وأيضًا في کتاب الصلاة، باب في
الاستغفار، 2 / 88، الرقم : 1531، والنسائي في السنن، کتاب
الجمعة، باب بإکثار الصلاة علی النبي صلی الله عليه وآله وسلم
يوم
الجمعة، 3 / 91، الرقم : 1374، وأيضًا في السنن الکبری، 1 / 519،
الرقم : 1666، وابن ماجه في السنن، کتاب إقامة الصلاة، باب في
فضل الجمعة، 1 / 345، الرقم : 1085، والدارمي في السنن، 1 /
445، الرقم : 1572، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 8، الرقم :
16207، وابن أبي شيبة في المصنف، 2 / 253، الرقم : 8697، وابن
خزيمة في الصحيح، 3 / 118، الرقم : 1733.1734، وابن حبان في ا
لصحيح، 3 / 190، الرقم : 910، والحاکم في المستدرک، 1 / 413،
الرقم : 1029، والبزار في المسند، 8 / 411، الرقم : 3485،
والطبراني في المعجم الأوسط، 5 / 97، الرقم : 4780، وأيضًا في
المعجم الکبير، 1 / 261، الرقم : 589، والبيهقي في السنن
الصغری، 1 / 371، الرقم : 634، وأيضًا في السنن الکبری، 3 / 248،
الرقم : 5789، وأيضًا في شعب الإيمان، 3 / 109، الرقم : 3029،
والجهضمي في فضل الصلاة علی النبي صلی الله عليه وآله وسلم
/ 37، الرقم : 22، والوادياشي في تحفة المحتاج، 1 / 524، الرقم :
661، والعسقلاني في فتح الباري، 11 / 370، والعجلوني في
کشف الخفائ، 1 / 190، الرقم : 501، وابن کثير في تفسير القرآن
العظيم، 3 / 515.
’’حضرت اَوس بن اَوس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی
اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیشک تمہارے دنوں
میں سے جمعہ کا دن سب سے بہتر ہے۔ اِس دن حضرت آدم علیہ
السلام پیدا ہوئے اور اسی دن انہوں نے وفات پائی اور اسی دن
صور پھونکا جائے گا اور اسی دن سخت آواز ظاہر ہو گی۔ سو اس
دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو، کیوں کہ تمہارا درود مجھ پر
پیش کیا جاتا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا
رسول اللہ! ہمارا درود آپ کے وصال کے بعد آپ کو کیسے پیش کیا
جائے گا؟ کیا آپ کا جسدِ مبارک خاک میں نہیں مل چکا ہو گا؟ آپ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (نہیں ایسا نہیں ہے) اللہ
تعالیٰ نے زمین پر اَنبیاءِ کرام (علیھم السلام) کے جسموں کو
(کھانا یا کسی بھی قسم کا نقصان پہنچانا) حرام فرما دیا ہے۔‘‘
ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
بے
شک اللہ برزگ و برتر نے زمین پر حرام قرار دیا ہے کہ وہ ہمارے
جسموں کو کھائے۔‘‘
اِس حدیث کو امام ابو داود، نسائی، ابن ماجہ اور دارمی نے روایت
کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا : یہ حدیث امام بخاری کی شرائط پر
صحیح ہے اور امام وادیاشی نے بھی فرمایا : اِسے امام ابن حبان
نے صحیح قرار دیا ہے۔ اور امام عسقلانی نے فرمایا : اِسے امام
ابن خزیمہ نے صحیح قرار دیا ہے اور امام عجلونی نے فرمایا :
اِسے
امام بیہقی نے جید سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ علامہ ابن کثير
نے فرمایا : اِسے امام ابن خزیمہ، ابن حبان، دار قطنی اور نووی
نے الاَذکار میں صحیح قرار دیا ہے۔
2. عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله
عليه وآله وسلم : أَکْثِرُوْا الصَّلَاةَ عَلَيَّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَإِنَّهُ مَشْهُوْدٌ
تَشْهَدُهُ الْمَـلَاءِکَةُ، وَإِنَّ أَحَدًا لَنْ يُصَلِّيَ عَلَيَّ إِلَّا عُرِضَتْ عَلَيَّ صَلَاتُهُ
حَتّٰی يَفْرُغَ مِنْهَا. قَالَ : قُلْتُ : وَبَعْدَ الْمَوْتِ؟ قَالَ : وَبَعْدَ الْمَوْتِ، إِنَّ
اﷲَ
حَرَّمَ عَلَی الْأَرْضِ أَنْ تَأْکُلَ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ، فَنَبِيُّ اﷲِ حَيٌّ يُرْزَقُ.
رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه بِإِسْنَادٍ صَحِيْحٍ. وَقَالَ الْمُنْذِرِيُّ : رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه بِإِسْنَادٍ
جَيِّدٍ. وَقَالَ الْمُنَاوِيُّ : قَالَ الدَّمِيْرِيُّ : رِجَالُهُ ثِقَاتٌ. وَقَالَ الْعَجْلُوْنِيُّ :
حَسَنٌ.
أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب الجنائز، باب ذکر وفاته ودفنه
صلی الله عليه وآله وسلم ، 1 / 524، الرقم : 1637، والمنذري في
الترغيب والترهيب، 2 / 328، الرقم : 2582، وابن کثير في تفسير
القرآن العظيم، 3 / 515، 4 / 493، والمناوي في فيض القدير، 2 /
87، والعجلوني في کشف الخفائ، 1 / 190، الرقم : 501.
’’حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جمعہ کے دن مجھ پر کثرت
سے درود بھیجا کرو، یہ یوم مشہود (یعنی میری بارگاہ میں
فرشتوں کی حاضری کا خصوصی دن) ہے۔ اِس دن فرشتے (کثرت
سے میری بارگاہ میں) حاضر ہوتے ہیں، جب کوئی شخص مجھ پر
درود بھیجتا ہے تو اُس کے فارغ ہونے تک اُس کا درود میرے
سامنے
پیش کر دیا جاتا ہے۔ حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں
کہ میں نے عرض کیا : (یا رسول اﷲ!) اور آپ کے وصال کے بعد
(کیا ہو گا)؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں (میری
ظاہری) وفات کے بعد بھی (میرے سامنے اسی طرح پیش کیا
جائے گا کیوں کہ) اللہ تعالیٰ نے زمین پر انبیاءِ کرام علیھم السلام
کے جسموں کا کھانا حرام کر دیا ہے۔ سو اﷲ تعالیٰ کا نبی زندہ
ہوتا ہے اور اُسے رزق بھی عطا کیا جاتا ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ماجہ نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا
ہے۔ امام منذری نے فرمایا : اِسے امام ابن ماجہ نے جید اسناد
کے
ساتھ روایت کیا ہے اور امام مناوی نے بیان کیا کہ امام دمیری نے
فرمایا : اِس کے رجال ثقات ہیں۔ امام عجلونی نے بھی اسے
حدیثِ
حسن کہا ہے۔
3. عَنْ فَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ رضی الله عنه قَالَ : بَيْنَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله
عليه وآله وسلم قَاعِدٌ إِذْ دَخَلَ رَجُلٌ فَصَلّٰی فَقَالَ : اَللّٰهُمَّ، اغْفِرْ لِي
وَارْحَمْنِي، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : عَجِلْتَ،
أَيُهَا
الْمُصَلِّي، إِذَا صَلَّيْتَ، فَقَعَدْتَ، فَاحْمَدِ اﷲَ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، وَصَلِّ عَلَيَّ،
ثُمَّ اُدْعُهُ قَالَ : ثُمَّ صَلّٰی رَجُلٌ آخَرُ بَعْدَ ذَالِکَ، فَحَمِدَ اﷲَ وَصَلّٰی عَلَی
النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم. فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صلی الله عليه
وآله
وسلم : أَيُهَا الْمُصَلِّي، اُدْعُ تُجَبْ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَاءِيُّ وَابْنُ خُزَيْمَةَ، وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هٰذَا حَدِيْثٌ
حَسَنٌ. وَقَالَ الْمُنْذِرِيُّ : حَدِيْثٌ حَسَنٌ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : فِيْهِ رُشْدَيْنُ
بْنُ سَعْدٍ حَدِيْثُهُ فِي الرِّقَاقِ مَقْبُوْلٌ وَبَقِيَةُ رِجَالِهِ ثِقَاتٌ.
أخرجه الترمذي في السنن، کتاب الدعوات، باب ما جاء في جامع
الدعوات عن النبي صلی الله عليه وآله وسلم ، 5 / 516، الرقم :
3476، والنسائي في السنن، کتاب السهو، باب التمجيد والصلاة
علی النبي صلی الله عليه وآله وسلم في الصلاة، 3 / 44، الرقم :
1284، وأيضًا في السنن الکبری، 1 / 380، الرقم : 1207، وابن
خزيمة في الصحيح، 1 / 351، الرقم : 709، والطبراني في المعجم
الکبير، 18 / 307، الرقم : 792، 794. 795، وأيضًا في الدعائ / 46،
الرقم : 89. 90، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 319، الرقم :
2544، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 155.
’’حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ایک مرتبہ
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے درمیان تشریف
فرما تھے کہ اچانک ایک شخص آیا اور اس نے نماز ادا کی اور یہ
دعا مانگی : ’’اے اﷲ! مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم فرما.‘‘ تو
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے نمازی!
تو
نے جلدی کی جب نماز پڑھ چکو تو پھر سکون سے بیٹھ جاؤ، پھر
اللہ تعالیٰ کے شایان شان اس کی حمد و ثنا کرو، اور پھر مجھ پر
درود و سلام بھیجو اور پھر دعا مانگو۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ پھر
ایک اور شخص نے نماز ادا کی، تو اس نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا
بیان کی، اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و
سلام بھیجا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
فرمایا
: اے نمازی! (اپنے رب) سے مانگو تمہیں عطا کیا جائے گا.‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی، نسائی اور ابن خزیمہ نے روایت کیا ہے۔
امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن ہے۔ اور امام منذری نے
بھی اسے حسن قرار دیا ہے۔ اور امام ہیثمی نے فرمایا : اس کی
سند میں رشدین بن سعد ہیں جن کی روایات رقاق میں مقبول
ہیں اور بقیہ تمام رجال بھی ثقہ ہیں۔
4. عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ أَوْ أَبِي أُسَيْدٍ الْأَنْصَارِيِّ رضی الله عنه يَقُوْلُ : قَالَ
رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِذَا دَخَلَ أَحَدُکُمُ الْمَسْجِدَ
فَلْيُسَلِّمْ عَلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم ثُمَّ لِيَقُلْ : اَللّٰهُمَّ
افْتَحْ لِي أَبْوَابَ رَحْمَتِکَ، فَإِذَا خَرَجَ فَلْيَقُلْ : اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُکَ مِنْ
فَضْلِکَ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَاللَّفْظُ لَهُ وَابْنُ مَاجَه وَالدَّارِمِيُّ.
وَقَالَ الرَّازِيُّ : قَالَ أَبُوْ زُرْعَةَ : عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ وَأَبِي أُسَيْدٍ کِـلَاهُمَا عَنِ
النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم أَصَحُّ. وَقَالَ الْمُنَاوِيُّ : إِذَا دَخَلَ
أَحَدُکُمُ الْمَسْجِدَ فَلْيُسَلِّمْ نُدْبًا مُؤَکَّدًا أَوْ وُجُوْبًا عَلَی النَّبِيّ صلی الله
عليه وآله وسلم لِأَنَّ الْمَسَاجِدَ مَحَلُّ الذِّکْرِ، وَالسَّـلَامُ عَلَی النَّبِيِّ
صلی الله عليه وآله وسلم مِنْهُ.
أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الصلاة، باب فيما يقوله الرجل عند
دخوله المسجد، 1 / 126، الرقم : 465، وابن ماجه في السنن،
کتاب المساجد والجماعات، باب الدعاء عند دخول المسجد، 1 /
254، الرقم : 772، والدارمي في السنن، 1 / 377، الرقم : 1394،
وابن حبان في الصحيح، 5 / 397، الرقم : 2048، والرازي في علل
الحديث، 1 / 178، الرقم : 509.
’’حضرت ابو حمید الساعدی یا ابو اُسید الانصاری رضی اﷲ عنہما
بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
فرمایا : جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو تو اُسے
چاہیے کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلام
بھیجے پھر کہے : ’’اے اللہ! میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے
کھول دے۔ اور جب مسجد سے باہر نکلے تو کہے : ’’اے اﷲ! میں
تجھ سے تیرا فضل مانگتا ہوں۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم، ابو داود نے مذکورہ الفاظ میں اور ابن
ماجہ و دارمی نے روایت کیا ہے۔
امام ابو حاتم رازی نے بیان کیا کہ امام ابو زُرعہ نے فرمایا : حضرت
ابو حمید اور ابو اُسید رضی اﷲ عنہما دونوں سے مروی روایات
صحیح تر ہوتی ہیں۔ اور امام مناوی نے فرمایا : جب تم میں سے
کوئی مسجد میں داخل ہو تو اسے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کی خدمت میں سلام کو محبوب، ضروری اور لازم
سمجھتے ہوئے عرض کرنا چاہیے کیوں کہ مساجد ذکر کرنے کی
جگہ ہیں اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت
میں سلام عرض کرنا بھی ذکر الٰہی ہی ہے۔
5. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله
عليه وآله وسلم : لَا تَجْعَلُوْا بُيُوْتَکُمْ قُبُوْرًا وَلَا تَجْعَلُوْا قَبْرِي عِيْدًا وَصَلُّوْا
عَلَيَّ فَإِنَّ صَلَا تَکُمْ تَبْلُغُنِي حَيْثُ کُنْتُمْ
رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَأَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ عَنْ عَلِيٍّ رضی الله عنه،
وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ. وَقَالَ النَّوَوِيُّ : رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ بِإِسْنَادٍ صَحِيْحٍ
وَأَيَدَهُ
ابْنُ کَثِيْرٍ.
أخرجه أبو داود في السنن، کتاب المناسک، باب زيارة القبور، 2 /
218، الرقم : 2042، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 367، الرقم :
8790، وابن أبي شيبة في المصنف، 2 / 150، الرقم : 7542، وأيضًا،
3 / 30، الرقم : 11818، والطبراني في المعجم الأوسط، 8 / 81،
الرقم : 8030، والبزار عن علي رضی الله عنه في المسند، 2 /
147،
الرقم : 509، والبيهقي في شعب الإيمان، 3 / 491، الرقم : 4162،
والديلمي في مسند الفردوس، 5 / 15، الرقم : 7307، وابن سرايا
في سلاح المؤمن في الدعائ، 1 / 44، الرقم : 27، وابن کثير في
تفسير القرآن العظيم، 13 / 516، والنووي في رياض الصالحين، 1 /
316.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اپنے گھروں کو قبرستان نہ
بنائو (یعنی اپنے گھروں میں بھی نماز پڑھا کرو انہیں قبرستان
کی
طرح ویران نہ رکھو) اور نہ ہی میری قبر کو عید گاہ بناؤ (کہ جس
طرح عید سال میں دو مرتبہ آتی ہے اس طرح تم سال میں صرف
ایک یا دو دفعہ میری قبر کی زیارت کرو بلکہ میری قبر کی جس قدر
ممکن ہو کثرت سے زیارت کیاکرو) اور مجھ پر (کثرت سے) درود
بھیجا کرو۔ سو تم جہاں کہیں بھی ہوتے ہو تمہارا درود مجھے
پہنچ
جاتا ہے۔‘‘
اِس حدیث کو امام ابو داود، احمد اور ابن ابی شیبہ نے حضرت
علی رضی اللہ عنہ سے اور طبرانی و بیہقی نے روایت کیا ہے۔
امام نووی نے فرمایا : اِسے امام ابو داود نے صحیح سند کے ساتھ
روایت کیا ہے اور امام ابن کثير نے بھی اِن کی تائید کی ہے۔
6. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله
وسلم قَالَ : مَنْ ذُکِرْتُ عِنْدَهُ فَلْيُصَلِّ عَلَيَّ، وَمَنْ صَلّٰی عَلَيَّ مَرَّةً
صَلَّی اﷲُ عَلَيْهِ عَشْرًا.
رَوَاهُ النَّسَاءِيُّ وَأَبُوْ يَعْلٰی وَالطَّبَرَانِيُّ، وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : رِجَالُهُ رِجَالُ
الصَّحِيْحِ.
أخرجه النسائي في السنن الکبری، کتاب عمل اليوم والليلة، باب
ثواب الصلاة علی النبي صلی الله عليه وآله وسلم ، 6 / 21، الرقم :
9889، وأبو يعلی في المسند، 7 / 75، الرقم : 4002، وأيضًا في
المعجم، 1 / 203، الرقم : 240، والطبراني في المعجم الأوسط، 5 /
162، الرقم : 4948، والطيالسي في المسند، 1 / 283، الرقم :
6122، وأبو نعيم في حلية الأولياء ، 4 / 347، والمنذري في
الترغيب
والترهيب، 2 / 323، الرقم : 2559، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10
/ 163.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت بیان فرماتے ہیں کہ
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس شخص
کے سامنے بھی میرا ذکر ہو اسے چاہیے کہ مجھ پر درود بھیجے
اور جو مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ (بصورتِ رحمت)
اس پر دس مرتبہ درود بھیجتا ہے۔‘‘
اسے امام نسائی، ابو یعلی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام
ہیثمی نے فرمایا : اس سند کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔
7. عَنْ أَبِي مَسْعُوْدٍ الْأَنْصَارِيِّ رضی الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ صلی الله
عليه وآله وسلم قَالَ : أَکْثِرُوْا عَلَيَّ الصَّـلَاةَ فِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ، فَإِنَّهُ
لَيْسَ أَحَدٌ يُصَلِّي عَلَيَّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ إِلَّا عُرِضَتْ عَلَيَّ صَلَا تُهُ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالْبَيْهَقِيُّ. وَقَالَ الْحَاکِمُ : هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِْسْنَادِ.
أخرجه الحاکم في المستدرک، کتاب التفسير، باب تفسير سورة
الأحزاب، 2 / 457، الرقم : 3577، والبيهقي في شعب الإيمان، 3 /
110، الرقم، 3030، والشوکاني في نيل الأوطار، 3 / 305.
’’حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی
اللہ
علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے فرمایا : جمعہ کے دن مجھ پر درود کی کثرت کیا کرو،
بے
شک جو بھی مجھ پر جمعہ کے دن درود بھیجتا ہے اُس کا درود
مجھے پیش کیا جاتا ہے۔‘‘
اِس حدیث کو امام حاکم اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم
نے فرمایا : اس حدیث کی سند صحیح ہے۔
وفي رواية : عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ
صلی الله عليه وآله وسلم : أَکْثِرُوْا عَلَيَّ مِنَ الصَّـلَاةِ فِي کُلِّ يَوْمِ
جُمُعَةٍ، فَإِنَّ صَـلَاةَ أُمَّتِي تُعْرَضُ عَلَيَّ فِي کُلِّ يَوْمِ جُمُعَةٍ، فَمَنْ کَانَ
أَکْثَرَهُمْ عَلَيَّ صَـلَاةً کَانَ أَقْرَبَهُمْ مِنِّي مَنْزِلَةً.
رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ وَلَا بَأْسَ بِسَنَدِهِ کَمَا قَالَ الْعَسْقَـلَانِيُّ. وَقَالَ الْمُنْذِرِيُّ
وَالْعَجْلُوْنِيُّ : رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ بِإِسْنَادٍ حَسَنٍ.
أخرجه البيهقي في السنن الکبری، کتاب الجمعة، باب ما يؤمر به
ليلة الجمعة ويومها، 3 / 249، الرقم : 5791، وأيضًا في شعب
الإيمان، 3 / 110، الرقم : 3032، والمنذري في الترغيب والترهيب،
2
/ 328، الرقم : 2583، والعسقلاني في فتح الباري، 11 / 167،
والشوکاني في نيل الأوطار، 3 / 304.
’’حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی
اکرم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جمعہ کے دن مجھ پر کثرت
سے درود بھیجاکرو، بے شک میری اُمت کا درود ہر جمعہ کے روز
مجھے پیش کیا جاتا ہے اور میری اُمت میں سے جو مجھ پر سب
سے زیادہ درود بھیجنے والا ہوگا وہ مقام و منزلت کے اعتبار سے
بھی میرے سب سے زیادہ قریب ہو گا.‘‘
اِس حدیث کو امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔ امام عسقلانی نے
فرمایا : اِس کی سند میں کوئی نقص نہیں ہے اور امام منذری اور
عجلونی نے فرمایا : اِسے امام بیہقی نے سندِ حسن کے ساتھ
روایت کیا ہے۔
8. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله
عليه وآله وسلم : مَنْ ذَکَرَنِي فَلْيُصَلِّ عَلَيَّ وَمَنْ صَلّٰی عَلَيَّ وَاحِدَةً
صَلَّيْتُ عَلَيْهِ عَشْرًا.
رَوَاهُ أَبُوْ يَعْلٰی وَالْمَقْدِسِيُّ، وَقَالَ : إِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ.
أخرجه أبو يعلی في المسند، 6 / 354، الرقم : 3681، والمقدسي
في الأحاديث المختارة، 4 / 395، الرقم : 1567، والهيثمي في
مجمع الزوائد، 1 / 137.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص بھی میرا ذکر کرے اسے
چاہیے کہ وہ مجھ پر درود بھیجے اور جو مجھ پر ایک مرتبہ درود
بھیجتا ہے میں اس پر دس مرتبہ درود بھیجتا ہوں۔‘‘
اسے امام ابو یعلی اور مقدسی نے روایت کیا ہے اور امام
مقدسی
نے فرمایا : اس کی سند صحیح ہے۔
9. عَنْ عُبَيْدِ اﷲِ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيْهِ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ
اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : يَا بُرَيْدَةُ، إِذَا جَلَسْتَ فِي صَـلَاتِکَ،
فَـلَا تَتْرُکَنَّ التَّشَهُدَ وَالصَّلَاةَ عَلَيَّ فَإِنَّهَا زَکَاةُ الصَّلَاةِ، وَسَلِّمْ عَلٰی
جَمِيْعِ أَنْبِيَاءِ اﷲِ وَرُسُلِهِ، وَسَلِّمْ عَلٰی عِبَادِ اﷲِ الصَّالِحِيْنَ. رَوَاهُ الدَّارَ
قُطْنِيُّ وَالدَّيْلِمِيُّ
.
أخرجه الدار قطني في السنن، 1 / 355، الرقم : 3، والديلمي في
مسند الفردوس، 5 / 392، الرقم : 8527، والهيثمي في مجمع
الزوائد، 2 / 132.
’’حضرت عبید اﷲ بن بریدہ اپنے والد حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ
سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
نے فرمایا : اے بریدہ! جب تم اپنی نماز پڑھنے بیٹھو تو تشہد اور
مجھ پر درود بھیجنا کبھی ترک نہ کرنا، وہ نماز کی زکاۃ ہے۔ اور
اللہ
تعالیٰ کے تمام انبیاء اور رسولوں پر اور اُس کے صالح بندوں پر بھی
سلام بھیجا کرو۔‘‘
اِس حدیث کو امام دار قطنی اور دیلمی نے روایت کیا ہے۔
10. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله
وسلم قَالَ : مَنْ صَلّٰی عَلَيَّ وَاحِدَةً، صَلَّی اﷲُ عَلَيْهِ عَشْرًا.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذيُّ وَالنَّسَاءِيُّ وَالدَّارِمِيُّ.
وَزَادَ التِّرْمِذِيُّ : وَکَتَبَ لَهُ بِهَا عَشْرَ حَسَنَاتٍ.
وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : حَدِيْثُ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه حَدِيْثٌ حَسَنٌ
صَحِيْحٌ.
أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الصلاة، باب الصلاة علی النبي
صلی الله عليه وآله وسلم بھذا التشھد، 1 / 306، الرقم : 408،
والترمذي في السنن، أبواب الوتر، باب ما جاء في فضل الصلاة علی
النبي صلی الله عليه وآله وسلم ، 2 / 353، 354، الرقم : 484.
485، والنسائي في السنن، کتاب السھو، باب الفضل في الصلاة
علی النبي صلی الله عليه وآله وسلم ، 3 / 50، الرقم : 1296،
وأيضًا في السنن الکبری، 1 / 384، الرقم : 1219، والدارمي في
السنن، 2 / 408، الرقم : 2772، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 /
375، الرقم : 8869. 10292.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ
درود بھیجتا ہے تو اﷲتعالیٰ اس پر دس مرتبہ درود (رحمت) بھیجتا
ہے۔‘‘
اور امام ترمذی نے ان الفاظ کا اضافہ کیا : ’’اوراﷲتعالیٰ اس کے
لیے دس نیکیاں بھی اس (درود پڑھنے) کے بدلے میں لکھ دیتا
ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم، ترمذی اور نسائی نے روایت کیا ہے۔ نیز
امام ترمذی نے فرمایا : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث
حسن صحیح ہے۔
11. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ مَسْعُودٍ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله
عليه وآله وسلم قَالَ : أَوْلَی النَّاسِ بِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَکْثَرُهُمْ عَلَيَّ
صَـلَاةً.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَأَبُوْ يَعْلٰی وَالْبُخَارِيُّ فِي
الْکَبِيْرِ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ. وَقَالَ النَّوَوِيُّ : حَدِيْثٌ
حَسَنٌ. وَقَالَ الْمِزِّيُّ : حَدِيْثٌ حَسَنٌ. وَقَالَ الْعَسْقَـلَانِيُّ : حَسَّنَهُ
التِّرْمِذِيُّ. وَصَحَّحَهُ ابْنُ حِبَّانَ وَلَهُ شَاهِدٌ عِنْدَ الْبَيْهَقِيِّ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ
رضی الله عنه وَلَا بَأْسٌ بِسَنَدِهِ.
أخرجه الترمذي في السنن، أبواب الوتر، باب ما جاء في فضل
الصلاة
علی النبي صلی الله عليه وآله وسلم ، 2 / 354، الرقم : 484،
وابن
حبان في الصحيح، 3 / 192، الرقم : 911، وابن أبيشيبة في
المصنف، 6 / 325، الرقم : 31787، والبخاري في التاريخ الکبير، 5 /
177، الرقم : 559، وأبو يعلی في المسند، 8 / 427، الرقم : 5011،
والشاشي في المسند، 1 / 408، الرقم : 413. 414، والطبراني
في
المعجم الکبير، 10 / 17، الرقم : 9800، والبيهقي في السنن
الکبری، 3 / 249، الرقم : 5791، وأيضًا في شعب الإيمان، 2 / 212،
الرقم : 1563، والنووي في رياض الصالحين، 1 / 316، والمزي في
تهذيب الکمال، 15 / 482، الرقم : 3509، والعسقلاني في فتح
الباري، 11 / 167.
’’حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ
حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قیامت کے
دن
لوگوں میں سے سب سے زیادہ میرے قریب وہ شخص ہو گا جس
نے ان میں سے سب سے زیادہ مجھ پر درود بھیجا ہوگا.‘‘
اسے امام ترمذی، ابن حبان، ابن ابی شیبہ، ابو یعلی اور بخاری
نے التاریخ الکبير میں روایت کیا ہے۔ امام ترمذی، نووی اور مزی نے
فرمایا : یہ حدیث حسن ہے۔ اور امام عسقلانی نے بھی فرمایا :
اسے امام ترمذی نے حسن اور امام ابن حبان نے صحیح قرار دیا
ہے اور امام بیہقی کے ہاں بھی اس کی تائید حضرت ابو امامہ
رضی اللہ عنہ کی حدیث سے بھی ہوتی ہے اور اس کی سند
میں
کوئی نقص نہیں ہے۔
12. عَنْ أُبَيِّ بْنِ کَعْبٍ رضی الله عنه قَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله
عليه وآله وسلم إِذَا ذَهَبَ ثُلُثَا اللَّيْلِ، قَامَ فَقَالَ : يَا أَيُهَا النَّاسُ،
اُذْکُرُوا
اﷲَ، اُذْکُرُوا اﷲَ، جَائَتِ الرَّاجِفَةُ تَتْبَعُهَا الرَّادِفَةُ، جَائَ الْمَوْتُ بِمَا فِيْهِ
جَائَ الْمَوْتُ بِمَا فِيْهِ، قَالَ أُبَيٌّ : قُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِنِّي أُکْثِرُ
الصَّلَاةَ
عَلَيْکَ، فَکَمْ أَجْعَلُ لَکَ مِنْ صَلَاتِي؟ فَقَالَ : مَا شِئْتَ، قَالَ : قُلْتُ :
الرُّبُعَ؟ قَالَ : مَا شِئْتَ، فَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَيْرٌ لَکَ. قُلْتُ : النِّصْفَ؟ قَالَ :
مَا
شِئْتَ، فَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَيْرٌ لَکَ. قَالَ : قُلْتُ : فَالثُّلُثَيْنِ؟ قَالَ : مَا شِئْتَ،
فَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَيْرٌ لَکَ. قُلْتُ : أَجْعَلُ لَکَ صَلَا تِي کُلَّهَا، قَالَ : إِذًا
تُکْفَی هَمَّکَ وَيُغْفَرُ لَکَ ذَنْبُکَ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ وَالْبَيْهَقِيُّ، وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هٰذَا حَدِيْثٌ
حَسَنٌ صَحِيْحٌ. وَقَالَ الْحَاکِمُ : هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ. وَقَالَ
الْهَيْثَمِيُّ : رَوَاهُ أَحْمَدُ وَإِسْنَادُهُ حَسَنٌ.
أخرجه الترمذي في السنن، کتاب صفة القيامة والرقائق والورع، 4 /
636، الرقم : 2457، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 136، الرقم :
21280، والحاکم في المستدرک، 2 / 457، 458، الرقم : 3578،
3894، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 89، الرقم : 170، والبيهقي
في شعب الإيمان، 2 / 187، الرقم : 1499، والمقدسي في
الأحاديث المختارة، 3 / 389، الرقم : 1185، وَإِسْنَادُهُ حَسَنٌ،
والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 327، الرقم : 2577،
والهيثمي
في مجمع الزوائد، 10 / 160.
’’حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی
اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب رات کا دو تہائی حصہ گزر جاتا
تو گھر سے باہر تشریف لے آتے اور فرماتے : لوگو! اللہ کا ذکر کرو،
اللہ کا ذکر کرو، ہلادینے والی (قیامت) آگئی، پیچھے آنے والا ایک
اور زلزلہ اس کے پیچھے آئے گا، موت اپنی سختی کے ساتھ
آگئی، موت اپنی سختی کے ساتھ آگئی۔ حضرت اُبی رضی اللہ
عنہ نے کہا کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں کثرت سے
آپ
پردرود بھیجتا ہوں۔ سو میں آپ پر کتنا درود بھیجا کروں؟ حضور نبی
اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس قدر تم چاہو؟
انہوں
نے عرض کیا : کیا میں اپنی دعا (اور ذکر اذکار) کا چوتھائی حصہ
آپ پر درود بھیجنے کے لیے خاص کر دوں؟ حضور صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے فرمایا : جتنا تم چاہو لیکن اگر اس میں اضافہ کرلو
تو
یہ تمہارے لیے بہتر ہے، میں نے عرض کیا : (یا رسول اﷲ!) آدھا
حصہ خاص کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جتنا
تو چاہے لیکن اگر تو اس میں اضافہ کرلے تو یہ تیرے لیے بہتر ہے،
میں نے عرض کیا : (یا رسول اﷲ!) دو تہائی کافی ہے؟ آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جتنا تو چاہے لیکن اگر تو اس میں
اضافہ کرلے تو یہ تیرے لیے بہتر ہے۔ میں نے عرض کیا : (یا رسول
اﷲ!) میں ساری دعا (اور ذکر اَذکار کا سارا وقت) آپ پر درود
بھیجنے کے لیے خاص کرتا ہوں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے فرمایا : پھر تو یہ درود ہی تمہارے تمام غموں (کا مداوا
کرنے) کے لیے کافی ہو جائے گا اور (اسی کے باعث) تمہارے
تمام گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔‘‘
اسے امام ترمذی، احمد، حاکم اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔ امام
ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن صحیح ہے اور امام حاکم نے
فرمایا : اس حدیث کی سند صحیح ہے اور امام ہیثمی نے بھی
فرمایا : اسے امام احمد نے سندِ حسن کے ساتھ روایت کیا ہے۔
13. عَنْ حِبَّانَ بْنِ مُنْقِذٍ رضی الله عنه أَنَّ رَجُـلًا قَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ،
أَجْعَلُ ثُلَثَ صَلَاتِي عَلَيْکَ؟ قَالَ : نَعَمْ، إِنْ شِئْتَ قَالَ : الثُّلُثَيْنِ؟ قَالَ :
نَعَمْ، قَالَ : فَصَلَاتِي کُلُّهَا؟ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله
وسلم
: إِذَنْ يَکْفِيْکَ اﷲُ مَا أَهَمَّکَ مِنْ أَمْرِ الدُّنْيَا وَآخِرَتِکَ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ وَالْبَيْهَقِيُّ مَرْسَـلًا، وَقَالَ : هٰذَا مُرْسَلٌ
جَيِّدٌ. وَقَالَ الْمُنْذِرِيُّ : رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ بِإِسْنَادٍ حَسَنٍ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ :
إِسْنَادُهُ حَسَنٌ.
أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 4 / 35، الرقم : 3574، وابن
أبي عاصم في الآحاد والمثاني، 4 / 142، الرقم : 2122، والبيهقي
في شعب الإيمان، 2 / 217، الرقم : 1580، والمنذري في الترغيب
والترهيب، 2 / 328، الرقم : 2578، والفسوي في المعرفة والتاريخ،
1 / 198، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 160.
’’حضرت حبان بن منقذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی
نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں
عرض
کیا : یا رسول اﷲ! کیا میں اپنی دعا (اور ذکر اَذکار) کا تیسرا حصہ
آپ پر درود بھیجنے کے لیے خاص کردوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے فرمایا : ہاں اگر تو چاہے (تو ایسا کر سکتا ہے) پھر اس
نے عرض کیا : (یا رسول اﷲ!) کیا دعا کا دو تہائی حصہ (آپ پر
درود بھیجنے کے لیے خاص کر دوں)؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
نے فرمایا : ہاں، پھر اس نے عرض کیا : (یا رسول اﷲ!) کیا ساری
کی ساری دعا (آپ پر درود بھیجنے کے لیے خاص کر دوں)؟ یہ
سن کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پھر تواللہ تعالیٰ
تیرے دنیا اور آخرت کے تمام معاملات کے لیے کافی ہو جائے گا.‘‘
اس حدیث کو امام طبرانی، ابن ابی عاصم اور بیہقی نے بھی
مرسلاً روایت کیا ہے اور امام بیہقی نے فرمایا : یہ مرسل جید ہے۔
اور امام منذری اور امام ہیثمی نے فرمایا : اسے امام طبرانی نے
سندِ حسن کے ساتھ روایت کیا ہے۔
وفي رواية : عَنِ الطُّفَيْلِ بْنِ أُبَيٍّ عَنْ أَبِيْهِ قَالَ : قَالَ رَجُلٌ لِلنَّبِيِّ صلی
الله عليه وآله وسلم : أَرَأَيْتَ أَنْ جَعَلْتُ صَلَاتِي کُلَّهَا صَلَاةً عَلَيْکَ؟
قَالَ : إِذًا يَکْفِيْکَ اﷲُ مَا أَهَمَّکَ مِنْ أَمْرِ دُنْيَاکَ وَآخِرَتِکَ.
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.
أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، کتاب صلاة التطوع والإمامة،
باب
في ثواب الصلاة علی النبي صلی الله عليه وآله وسلم ، 2 / 253،
الرقم : 8706، وأيضًا، 6 / 325، الرقم : 31783.
’’حضرت طفیل بن اُبی رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے
ہیں کہ ایک صحابی نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کی بارگاہ میں عرض کیا : (یا رسول اللہ!) آپ کی کیا رائے ہے اگر
میں اپنی ساری دعا آپ پر درود بھیجنے کے لیے خاص کر دوں؟
تو
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پھر تو اللہ تعالیٰ تمہارے
دنیا و آخرت سے متعلق تمام اُمور کے لیے کافی ہوجائے گا.‘‘
اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
14. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : إِنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله
عليه وآله وسلم قَالَ : مَا مِنْ أَحَدٍ يُسلِّمُ عَلَيَّ إِلَّا رَدَّ اﷲُ عَلَيَّ
رُوْحِي حَتّٰی أَرُدَّ عَلَيْهِ السَّـلَامَ.
رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَأَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ. وَقَالَ الْعَسْقَـلَانِيُّ : رَوَاهُ
أَبُوْ
دَاوُدَ وَرُوَاتُهُ ثِقَاتٌ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : وَفِيْهِ عَبْدُ اﷲِ بْنُ يَزِيْدَ
الإِسْکَنْدَرَانِيُّ وَلَمْ أَعْرِفْهُ وَمَهْدِيُّ بْنُ جَعْفَرٍ ثِقَةٌ…وَبَقِيَةُ رِجَالِهِ ثِقَاتٌ.
أخرجه أبو داود في السنن، کتاب المناسک، باب زيارة القبور، 2 /
218، الرقم : 2041، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 527، الرقم :
10867، والطبراني في المعجم الأوسط، 3 / 262، الرقم : 3092،
9329، والبيهقي في السنن الکبری، 5 / 245، الرقم : 10050،
وأيضًا
في شعب الإيمان، 2 / 217، الرقم : 5181.4161، وابن راھويه في
المسند، 1 / 453، الرقم : 526، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 /
162.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (میری اُمت میں سے کوئی
شخص) ایسا نہیں جو مجھ پر سلام بھیجے مگر اﷲتعالیٰ نے
مجھ
پر میری روح واپس لوٹا دی ہوئی ہے یہاں تک کہ میں ہر سلام
کرنے والے (کو اُس) کے سلام کا جواب دیتا ہوں۔‘‘
اِس حدیث کو امام ابو داود، اَحمد، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا
ہے۔ نیز امام عسقلانی نے فرمایا : اِسے امام ابوداود نے روایت کیا
ہے اور اِس کے راوی ثقہ ہیں۔ امام ہیثمی نے بھی فرمایا : اِس
کی
سند میں عبد اللہ بن یزید الاسکندرانی راوی کو میں نہیں جانتا
جبکہ مہدی بن جعفر اور دیگر تمام راوی ثقات ہیں۔
15. عَنْ عَبْدِ اﷲِ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله
عليه
وآله وسلم : إِنَّ ِﷲِ مَـلَاءِکَةً سَيَاحِيْنَ فِي الْأَرْضِ، يُبَلِّغُوْنِي مِنْ أُمَّتِي
السَّـلَامَ.
رَوَاهُ النَّسَاءِيُّ والدَّارِمِيُّ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ. وَقَالَ الْحَاکِمُ :
هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
أخرجه النسائي في السنن کتاب السھو، باب السلام علی النبي
صلی الله عليه وآله وسلم ، 3 / 43، الرقم : 1282، وأيضًا في
السنن الکبری، 1 / 380، الرقم : 1205، وأيضًا، 6 / 22، الرقم :
9894، والدارمي في السنن، 2 / 409، الرقم : 2774، وابن حبان
في الصحيح، 3 / 195، الرقم : 914، وابن أبي شيبة في المصنف،
2
/ 253، الرقم : 8705، 31721، وعبد الرزاق في المصنف، 2 / 215،
الرقم : 3116، والحاکم في المستدرک، 2 / 456، الرقم : 3576.
’’حضرت عبد اﷲ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بلا شبہ اﷲ تعالیٰ کی زمین
میں بعض گشت کرنے والے فرشتے ہیں (جن کی ڈیوٹی یہی ہے
کہ) وہ مجھے میری اُمت کا سلام پہنچاتے ہیں۔‘‘
اِس حدیث کو امام نسائی، دارمی، ابن ابی شیبہ اور عبد الرزاق
نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا : اِس حدیث کی سند
صحیح ہے۔
16. عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ رضي اﷲ عنهما يَقُوْلُ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ
صلی
الله عليه وآله وسلم : إِنَّ اﷲَ وَکَّلَ بِقَبْرِي مَلَکًا أَعْطَاهُ أَسْمَاعَ
الْخَـلَاءِقِ، فَـلَا يُصَلِّي عَلَيَّ أَحَدٌ إِلٰی يَوْمِ الْقِيَامَةِ، إِلَّا بَلَغَنِي بِاسْمِهِ
واسْمِ أَبِيْهِ، هٰذَا فُـلَانُ بْنُ فُـلَانٍ قَدْ صَلّٰی عَلَيْکَ.
رَوَاهُ الْبَزَّارُ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ، وَق

0 comments :
Post a Comment