­

Fatawa Rizvia Jild 1 Read Online with urdu translation

بسم اللہ الرحمن الرحیم
کتابُ الطّہارۃ
باب الوضوء
رسالہ
اَلْجُوْدُ الْحُلُوُّفِیْ اَرْکانِ الْوُضُوْءِ (۱۳۲۴ھ)
(باران شیریں،ارکان وضو کے بیان میں )

                                                       Fatawa Rizvia Online Book read online in urdu free Fatawa Rizvia

مسئلہ۱ :  مسئولہ مولوی محمد ظفرالدین صاحب بہاری قادری ۱۰ شوال المکرم ۱۳۲۴ ھ
بحر العلوم النقلیۃ حبر الفنون العقلیۃ مجدد المائۃ الحاضرۃ متع اللّٰہ المسلمین بطول بقائکم۔وضو میں کتنے فرائض اعتقادی اور کتنے فرض عملی اور کَے واجب اعتقادی اور کَے واجب عملی ہیں؟ اور ہر ایک کی تعریف کیا ہے؟ مدلل ارشاد ہو۔جزاکم اللّٰہ تعالٰی من افضل ماجازی علماء امۃ حبیبہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم۔ (اللہ تعالٰی آپ کو وہ افضل ترین جزا عطا فرمائے جو اس نے اپنے حبیب کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی امت کے علماء کو عطا فرمائی ۔ت )

الجواب
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
اللھم لک الحمد فرضا لازماصل علی افضل ارکان الایمان وسلّم دائماً، ایھا السائل الفاضل رزقک اللّٰہ علما نافعا ھذا سوال لا یھتدی الیہ الا من وفقہ اللّٰہواللّٰہ یختص برحمتہ من یشاء واللّٰہ ذوالفضل العظیم ۱؂۔اے اللہ! تیرے لیے فرض لازم کے طور پر حمد ہے ، ایمان کے سب سے افضل رکن پر ہمیشہ درود وسلام نازل فرما ، سائل فاضل ! خدا تمہیں علم  نافع بخشے . یہ ایسا سوال ہے کہ جس کی ہدایت اسی کو نصیب ہوتی ہے جسے خدا اپنی توفیق سے نوازے اور اللہ اپنی رحمت سے جسے چاہتا ہے خاص فرماتا ہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے . (ت)

 (۱؂القرآن الکریم ۳/ ۷۴  )

مجتہد(ف۱)  جس شے کی طلب جزمی حتمی اذعان (عہ۱)کرے ، اگر وہ اذعان(عہ۲) بدرجہ یقین معتبر فی اصول الدین ہو ( اور اس تقدیر پر مسئلہ نہ ہوگا مگر مجمع علیہ ائمہ دین (عہ۱)) تو وہ فرض اعتقادی (عہ۲) ہے جس کا منکر عند الفقہاء مطلقا کافر(عہ۱)، اور متکلمین کے نزدیک ( منکر اس وقت کافر ہے ) جنکہ مسئلہ ضروریات دین سے ہو اور یہی عند المحقیقن احوط و اسدّ ( زیادہ احتیاط والا اور زیادہ درست ۔ت)۔

 (ف۱)فرض اعتقادی وفرض عملی وواجب اعتقادی وواجب عملی کی تعریفیں جلیل تحقیقیں ۔

 (عہ۱) اقول: والاذعان (ف۲) یعم الظن الغالب واکبر الرأی الملتحق فی الفقہیات بالیقین والیقین بالمعنی الاعم والمعنی الاخص المعتبرین فی العقائد۔ ۱۲ماقول : (میں کہتا ہوں) اذعان درج ذیل چیزوں کو شامل ہے (۱)ظنِ غالب اور راجح رائے جو فقہی مسائل کے اندر یقین میں شامل ہے (۲) یقین بمعنی اعم (۳) یقین بمعنی اخص ۔ یہ دونوں باب عقائد میں معتبر ہوتے ہیں (ت)

 (ف۲ )معنی الاذعان ۔

 (عہ۲) اذا اذعنّا بشیئ فان لم یحتمل خلافہ اصلا کوحدانیۃ اللّٰہ تعالی وحقانیۃ محمد صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم فیقین بالمعنی الاخص وان احتمل احتمالا ناشئا لا عن دلیل کامکان ان یکون الذی نراہ زیدا جنّیا تشکل بشکلہ فبا لمعنی الاعم ومثل ھذا الاحتمال لانظر الیہ اصلا ولا ینزل العلم عن درجۃ الیقین اما الناشیئ عن دلیل فیجعلہ ظنا والکل داخل فی الاذعان ۱۲منہ۔
جب ہمیں کسی بات کا اذعان حاصل ہو تو اگر۱(۱) اس کے خلاف کا بالکل احتمال نہ ہو جیسے اللہ تعالی کی وحدانیت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حقانیت. تو یہ یقین بمعنی اخص ہے ۔ اور اگر (۲)احتمال ہو مگر ایسا احتمال جو بغیر کسی دلیل کے پیدا ہوا ہو تو یہ یقین بمعنی اعم ہے ۔ جیسے وہ جسے ہم زید یقین کر رہے ہیں اس کے بارے میں یہ احتمال ہو سکتا ہے یہ کوئی جن ہو جس نے زید کی شکل اختیار کر لی ہے ۔ ایسا احتمال ذرا بھی قابل لحاظ نہیں ہوتا ۔ نہ ہی یہ علم کو درجہ یقین سے نیچے لا سکتا ، مگر جو احتمال کسی دلیل سے پیدا ہوا ہو ، وہ یقین کو ظن بنا دیتا ہے ۔ اور یہ تینوں ہی اذعان کے تحت داخل ہیں (ت) 
(عہ۱) لان مافیہ خلاف ولو مرجوحا لا یصل الٰی درجۃ ھذا الیقین۔
اس لئے کہ جس میں ائمہ دین کا اختلاف ہے ، اگرچہ خلافِ مرجوح ہی ہو ۔ وہ اس یقین کے درجہ تک نہیں پہنچ سکتا.(ت)
(عہ۲) اقول والاعتقاد (ف۱) وان ساوی الاذعان فی اصل وضعہ فالمراد بہ ھھنا ھو العلم بالمعنی الاخص المختص بالیقین الاعم والاخص ومنہ قولھم حدیث الاٰحادلا یفید الاعتماد فی باب الاعتقاد۔
اقول: ( میں کہتا ہوں) لفظ اعتقاد اصل وضع کے اعتبار سے اگرچہ اذعان کا مساوی ہے مگر یہاں اس سے مراد علم بمعنی اخص ہے جو یقین بمعنی اعم و یقین بمعنی اخص ہے ۔ اس اصطلاح کے تحت علماء کا یہ ارشاد آتا ہے کہ باب ''اعتقاد '' میں خبر آحاد مفید اعتماد نہیں. (ت)
(ف۱)معنی الاعتقاد ۔
(عہ۱) ای عند عامۃ مصنفیہم من اصحاب الفتاوی وغیرھم من المتاخرین اما ائمتنا الاقدمون فعلی ما علیہ المتکلمون کما حققہ خاتم المحققین سیدنا الوالد قدس سرہ الماجد فی بعض فتاواہ۔
اقول : ( میں کہتا ہوں)یعنی فقہائے متاخّرین میں سے اکثر مصنفین ، اصحابِ فتاوٰی و غیرہم کے نزدیک (وہ مطلقا کافر ہے )اور ہمارے  ائمہ متقدمین کا مسلک وہی ہے جس پر متکلمین ہیں جیسا کہ خاتم المحققین ہمارے والد ماجد قدس سرہ نے اپنے بعض فتاوٰی میں اس کی تحقیق فرمائی ہے۔(ت)

اور ہمارے اساتذہ کرام کا معول و معتمد ( وثوق اور اعتماد والا ۔ ت) ہے(عہ۲) ورنہ ( یعنی اگر اس مسئلہ پر تمام ائمہ کا اتفاق نہیں ہے تو واجب اعتقادی ہے ،

 (عہ۲) وفسرت (ف۲) الضروریات بما یشترک فی علمہ الخواص والعوام اقول المراد العوام الذین لھم شغل بالدین واختلاف بعلمائہ والا فکثیر من جہلۃ الاعراب لاسیما فی الھند والشرق لایعرفون کثیرا من الضروریات لابمعنی انھم لہا منکرون بل ھم عنھا غافلون فشتان ماعدم المعرفۃ ومعرفۃ العدم وانکان جہلا مرکبا فلا تجھل والتحقیق عندی ان الضرورۃ ھھنا بمعنی البداھۃ وقد تقرر ان البداھۃ والنظریۃ تختلف باختلاف الناس فرب مسألۃ نظریۃ مبنیۃ علی نظریۃ اخری اذا تبین المبنی عند قوم حتی صاراصلا مقررا وعلما ظاھرا فالاخری التی لم تکن تحتاج فی ظھورھا الا الٰی ظھور الاولی تلتحق عندھم بالضروریات وانکانت نظریۃ فی نفسھا الاتری ان کل قوس لم تبلغ ربعا تاما من اربعۃ ارباع الدور وجود کل من القاطع والظل الاول لھا بدیھی عندالمھندس لایحتاج اصلا الی اعمال نظر وتحریک فکر بعد ملاحظۃ المصادرۃ المشھورۃ المسلمۃ المقررۃ وانکان ھو والمصادرۃ کلاھما نظرمابین فی انفسھا ھکذا حال ضروریات الدین۔

ضروریاتِ دین کی تفسیر یہ کی گئی ہے کہ وہ دینی مسائل جن کو عوام و خواص سب جانتے ہوں اقول عوام سے مراد وہ لوگ ہیں جو دینی مسائل سے ذوق و شغل رکھتے ہوں اور علماء کی صحبت سے فیضیاب ہوں...ورنہ بہت سے اعرابی جاہل ... خصوصاً ہندوستان اور مشرق میں ...ایسے ہیں جو بہت سے ضروریاتِ دین سے آشنا نہیں .. اس معنی میں نہیں کہ ضروریاتِ دین کے منکر ہیں بلکہ وہ ان سے غافل ہیں ۔ بڑا فرق ہے عدمِ علم او ر علمِ عدم میں ۔ خواہ یہ جہلِ مرکب ہی ہو . تو اس فرق سے بے خبری نہ رہے، اور میرے نزدیک تحقیق یہ ہے کہ ضرورت یہاں بداہت کے معنی میں ہے اور یہ بات طے شدہ ہے کہ مختلف لوگوں کے اعتبار سے بداہت و نظریت بھی مختلف ہوتی ہے ۔ بہت سے نظری مسائل کی بنیاد کسی اور نظری مسئلہ پر ہوتی ہے ۔ اگر وہ بنیاد کسی طبقہ کے نزدیک روشن و واضح ہو کر ایک مقررہ قاعدہ اور واضح علم کی حیثیت اختیار کر لے تو دوسرا مسئلہ جس کے واضح ہونے کے لئے بس اسی پہلے مسئلہ کے واضح ہونے کی ضرورت تھی، اس طبقہ کے نزدیک ضروریات کی صف میں آ جاتا ہے اگرچہ وُہ بذات خود نظری تھا . دیکھیے ہندسہ داں (جیومیٹری والے) کے نزدیک یہ بات بالکل بدیہی ہے کہ ہر وُہ قوس جو دَور کے چار ربع میں سے ایک کامل ربع کے برابر نہ پہنچے اس کے لئے قاطع اور ظل اول ہونا ضروری ہے .۔اس میں کسی نظر کے استعمال اور فکر کو حرکت دینے کی ضرورت نہیں جب کہ مشہور مسلّم مقرر مصادرہ ملحوظ ہو اگرچہ یہ کلیہ اور وہ مصادرہ بذاتِ خود دونوں ہی نظری ہیں ۔یہی حال ضروریاتِ دین کا ہے (کہ بعض لوگوں کے لئے بدیہی ، بعض کے لئے نظری اور بعض کے لئے نامعلوم۔ ۱۲ مترجم ) (ت)
(ف۲)معنی ضروریات الدین ۔

About Unknown

This is an Islamic blog. You can Download or watch Quran Majeed in Audio as well as Video Format. All Islam related information is available to read and Download for free. Most authentic Books of Hadith Shareef are also available here.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments :

Post a Comment